Thursday 17 November 2016

ٹوٹنے پہ کانچ کے کنارے رہ جاتے
ڈوبتوں کو تنکوں کے سہارے رہ جاتے
مجھ کو تو آنے کی کچھ امید تو دیتا
جھوٹے دھلاسے سہی تمھارے رہ جاتے
پڑتی جو ہم کو ذرا سی آس بھی تیری
ڈھونڈتے یہ نین کچھ ہمارے رہ جاتے
بنتی لکیروں میں کچھ بھی شکل جو تیری
کھوجتے ہی ہاتھ ہم بے چارے رہ جاتے
سانس سبھی  زندگی کے ختم  ہو جاتے
ہوتے جو  تجھ سے جڑے وہ سارے رہ جاتے
وقت ء آخر یہ آنکھیں پھوڑ ہی جاتا
آنکھ میں تیرے ہی سب نظارے رہ جاتے
ہاتھ سے اپنے زباں بھی کاٹ یہ جاتا
ہم بے زباں ہوتے  بس اشارے رہ جاتے
کاش یہ سب کشتیاں تباہ نہ ہوتیں
غرق سمندر یہ ہوں کنارے رہ جاتے
مات سبھی نفرتوں کو ہوتی کہ عاجز
شہر یہ بکتے مگر چبارے رہ جاتے

No comments:

Post a Comment