Tuesday 15 November 2016

مرنے سے یوں اگر موت آنے لگے
قبر جنت لگے، گھر ستانے لگے
جب وہ میرا جنازہ اٹھانے لگے
آپ آئے محبت جتانے لگے
آسماں نے سہارے دیئے جب گرا
پھر  یوں ڈوبا سمندر بچانے لگے
ہو مسافر نیت کا پکا اس طرح
راستہ خود ہی  منزل  بتانے لگے
کاش میری محبت خدا ایسی ہو
شمع اس کی ہوا کو جلانے لگے
شب ٹھہر جائے، خالی نہ ہوں جام، جب
دور پہنچے ادھر وہ پلانے لگے
شوخیاں میں سمجھتا ہوں دن کی مگر
تم تو خوابوں میں نیندیں اڑانے لگے
ہم مسافر تھےٹھہرے یوں ہی  رات اک
لوگ کم بخت باتیں بنانے لگے
ایک پل کو میں بھی سوچ میں پڑ گیا
لوگ الزام اتنے لگانے لگے
وہ نہیں ہے ملا کام کی جو تری
بات مسلم کو کافر بنانے لگے
عشق میں زیست کی ہو گئی شام جب
پھینک سجدے میں سر رب منانے لگے

No comments:

Post a Comment