Thursday 8 December 2016

خدا

مجھے زندگی سے وفا چاہئے
مجھے رب کا میرے پتہ چاہئے
کسی ڈوبتے کو دعا چاہئے
میں سجدہ کروں پر خدا چاہئے
میں مخلوق ہوں کوئی خالق تو ہے
میں مانوں اسے پر وجہ چاہئے
زمانے میں رستے بہت ہیں خدا
مجھے بس کہ تیرا پتہ چاہئے
تجھےکھو دیا ہے میں نے ہی اگر
تو رحمت تری ہی ذرا چاہئے
تو موجود  ہر وقت ہے یوں مگر
ہماری نظر کو سماں چاہئے
نہیں ہوں میں مایوس تجھ سے ذرا
بہت آگ ہے بس ہوا چاہئے
میں تکلیف میں ہوں تو رب ہے مرا
سہارا ترا اب بڑا چاہئے
نشاں ہیں ترے ہی یہاں سے وہاں
وہیں ہے تو ہم کو جہاں چاہئے
ہے موجود ہر شے کی تخلیق میں
وہ کافر تجھے کس طرح چاہئے
دکھائی دیا تو جہاں کچھ نہ تھا
مجھے روشنی اب کہاں چاہئے
نظارے ترے ہی ہوں دن رات میں
مجھے کچھ یوں تیرا گماں چاہئے
عمر زندگی سے بڑی تو نہیں
مگر موت پہ حق ادا چاہئے

دعا

گرد ہو جاوں غبار ہو جاوں
کبھی اگر میں لاچار ہو جاوں
مجھے اپنے دائرے میں ہی رکھنا
جو اگر میں بے اختیار ہو جاوں

سب بھلاتا ہوں مگر ترے سوا ہی
سب بھولتے ہیں مجھ کو اور ترے سوا ہی
میں تجھ سے، تو مجھ سے جڑا ہے کس قدر
میں چھوٹا ہوں، تو بڑا ہے کس قدر

میں تخلیق بھی تری، بندہ بھی ترا اور ترا ہی میں
خدا بھی میرا تو، مالک بھی، رازق و رفیق بھی تو
آنکھوں میں نمی  نام کی ترے
میرے دل و دماغ اور شہ رگ سے نزدیک بھی تو

تو مولا ہے، داتا بھی تو ، میرا رب تو ہی ہے
میری نظر بھی تو، سماں بھی تو، میرا سب تو ہی ہے
دل اب وہی لذت ء توحید کا ہے پیاسا
کہ آتی تھی جس سے حق ہو ،حق ہو کی صدا
زباں کو چاہیئے وہی لذت ء ورد ء خدا کہ جس میں
لفظ اللہ کہنے سے جسم پہ ہوتی ہے کپکپی طاری

میرا نعرا اللہ اکبر ہو
میری تسبیح ہو اللہ اللہ
وقت ء آخر کا کلمہ ترا ہی سلسلہ ہو
ہو یوں کہ لا الہ الا للہ ہو
لا الہ الاللہ ہو
لا الہ الاللہ ہو

Thursday 17 November 2016

ٹوٹنے پہ کانچ کے کنارے رہ جاتے
ڈوبتوں کو تنکوں کے سہارے رہ جاتے
مجھ کو تو آنے کی کچھ امید تو دیتا
جھوٹے دھلاسے سہی تمھارے رہ جاتے
پڑتی جو ہم کو ذرا سی آس بھی تیری
ڈھونڈتے یہ نین کچھ ہمارے رہ جاتے
بنتی لکیروں میں کچھ بھی شکل جو تیری
کھوجتے ہی ہاتھ ہم بے چارے رہ جاتے
سانس سبھی  زندگی کے ختم  ہو جاتے
ہوتے جو  تجھ سے جڑے وہ سارے رہ جاتے
وقت ء آخر یہ آنکھیں پھوڑ ہی جاتا
آنکھ میں تیرے ہی سب نظارے رہ جاتے
ہاتھ سے اپنے زباں بھی کاٹ یہ جاتا
ہم بے زباں ہوتے  بس اشارے رہ جاتے
کاش یہ سب کشتیاں تباہ نہ ہوتیں
غرق سمندر یہ ہوں کنارے رہ جاتے
مات سبھی نفرتوں کو ہوتی کہ عاجز
شہر یہ بکتے مگر چبارے رہ جاتے
تجھے ڈھونڈتی ہے کوئی آنکھ
تجھے کھوجتی ہے کوئی آنکھ
چھلکتے کچھ اشکوں کے بدلے
تجھے مانگتی ہے کوئی آنکھ
آنسو کچھ اتنے گرے
کیا پتہ کتنے گرے
سب ہی تیرے نام تھے
جو بھی تھے جتنے گرے
نرم چھینٹے آنکھ کے
شوق سے مٹنے گرے
کچھ مٹانے یادوں کو
کچھ ہوا لکھنے گرے
سب گرے ترتیب سے
ایک سے کتنے گرے
کچھ سمٹ چھپ چھپ گرے
کچھ ذرا دکھنے گرے
موتی میری آنکھ کے
بے وجہ بکنے گرے
لکھا تقدیر کا بھی حق ہے
گلہ تدبیر کا بھی حق ہے
سزا پر ہے عمل پہ صرف
جواب رحیم کا بھی حق ہے
جنم، شکل، مکاں تقدیر تھا مانا
عقل، نظر، سماع تقدیر تھا مانا
چور، ڈاکو، سو  تقدیر نہیں ہے
مجبور ناری روح تقدیر نہیں ہے
تھا مختار گناہ میں تو کلی ہی
لکھا قلم کا بھی حق ہے
چھپا لوح کا بھی حق ہے
معلوم ہے اسے پتے جو بھی گرتے ہیں
معلوم ہے اسے بندے جو بھی پھرتے ہیں
مانا کہ ہنر سب کے ہیں الگ
مانا کہ سفر سب کے ہیں الگ
کتنے میں کتنے کا سوال ہے
جو علم تھا اتنے کا سوال ہے
تو نہیں نا سوال سب سے یکساں
دستور کاتب تقدیر کا بھی حق ہے
بس لکھے کی نہیں کیئے کی ہے جزا
جو ہونا تھا جو کیا پر ہے لکھا
لکھے کو جبر کیوں ہے مانے
لکھے کو قید کیوں ہے مانے
سمجھ بس یہ فرق کا نکتہ
تو جانے ہے موسم کل کا
وہ جانے ہے مقدر کل کا
لکھا تقدیر کا بھی حق ہے
گلہ تدبیر کا بھی حق ہے
تجھے کس بے بسی سے ملتا ہوں
ہاں بڑی بے خودی سے ملتا ہوں
نہ تمہیں مسکرا کے دیکھوں میں
میں کیا اجنبی سے ملتا ہوں
یوں ہو جاتا ہے حال اک دن سے
کہ رہ کر اک صدی سے ملتا ہوں
ہاں یقیں کرلو تم سے ملنا یہ
میں مرا ، زندگی سے ملتا ہوں
کوئی جانے نہ پر بھلا مجھ کو
ہوں عمر، عاجزی سے ملتا ہوں