Thursday 17 November 2016

تھے لوگ ظالم پر تم خیال تو کرتے
جواب دے دیتے پر سوال تو کرتے
تجھے مرے دل کی داد خوب ملتی پر
یوں سامنے ملتے کچھ کمال تو کرتے
تری ہنسی پہ قربان زیست یہ ہوتی
حجاب رہنے دیتے بے حال تو کرتے
یوں توڑ دیتے اس ذات کو مٹا دیتے
ہٹاتے ماتھے سے پیچھے بال تو کرتے
وہیں پتھر ہو جاتے سمٹ کے رہ جاتے
ذرا یوں ہنس دیتے سرخ گال تو کرتے
تڑپتے مرتے ہم آہ بھی نہ کرتے پر
تری سو گرتے تم بس کہ جال تو کرتے
شکار ایسا ہوتے تمہیں خوشی ہوتی
بری سہی تم کچھ دل سے چال تو کرتے
تری سو اٹھنے والے سبھی پتھر کھاتے
کہ درد سے مرتے تم پہ ڈھال تو کرتے
یہ زخم مجھ کو سونے نہ دیتے مر جاتا
یوں پاس تو رہتے دیکھ بھال تو کرتے
بہت تھی عادت ان کو بدلنے کی عاجز
مگر محبت کچھ ایک سال تو کرتے

No comments:

Post a Comment