Tuesday 15 November 2016

مرتے ہیں، اترتے ہیں، تری جان کے صدقے
ہو جاتے ہیں انسان ہی انسان کے صدقے
جب عشق سمندر میں نہ ہو کوئی بھی ساحل
پھر چھوڑ دو کشتی کسی طوفان کے صدقے
وہ آئے ترا نام لیا جان یہ مانگی
ہم نے بھی یوں دے دی تری پہچان کے صدقے
ساقی نے دیا زہر بھرا جام مجھے اور
میں پی گیا سارا تری دوکان کے صدقے
خنجر لئے ہاتھوں میں تلاشے ہیں وہ قاتل
ہم پھر ہیں مرے جاتے یوں انجان کے صدقے
انصاف کے پورے جو تقاضے ہیں یہاں پر
ہے عدل بھی جاتا ترے میزان کے صدقے
آنکھوں نے تری لوٹا ہے بازار لگا کر
ہم بک گئے سچ میں ترے سامان کے صدقے
تقدیر نہیں معجزے سے تم مرے ہوگے
ایمان لے آؤ، مرے ایمان کے صدقے
آنا ہے اسے  گھر  میں  کروں چاند سے روشن
میں گھر ہی جلا دوں مرے مہمان کے صدقے
شکوے ہیں اگر کچھ  تمہیں اس چاند سے بولو
ہم چاند مٹا دیں گے تری شان کے صدقے
یہ عمر ہو عاجز  کی ترے حکم کے پیچھے
مومن ہوں مروں کیوں کسی شیطان کے صدقے

No comments:

Post a Comment