Tuesday 15 November 2016

سب تیر نکلنے پہ کماں رہ جاتے ہیں
ان آنکھوں میں اشکوں کے نشاں رہ جاتے ہیں
ہر چیز اثر چھوڑتی ہے اپنا دیکھو
جاتے  ہیں مکیں پر یہ مکاں رہ جاتے ہیں
تم چھوڑ گئے پھر بھی  کھلا رکھتے ہیں در
مرتی ہیں امیدیں یہ  گماں رہ جاتے ہیں
گھر آس کے مسمار ہو جانے پر لیکن
یہ اشک عمر بھر یوں رواں رہ جاتے ہیں
سنتے ہیں خدا روز مرادیں سنتا ہے
ہر روز مگر ہم یہ کہاں رہ جاتے ہیں
ملتے ہیں تمہیں لوٹ بھی آتے ہیں لیکن
ملتے ہیں جہاں تم سے وہاں رہ جاتے ہیں
تنہا بھی نہیں ہوں جو اگر تنہا ہوں میں
وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں رہ جاتے ہیں
ہر روز سجاتے ہیں مکاں کو دل سے ہم
ہر روز ہی صاحب وہ کہاں رہ جاتے ہیں
ہر  طور جدائی میں چھلکتے ہیں آنسو
دکھ جاتے ہیں کچھ، کچھ یوں   نہاں رہ جاتے ہیں
یہ چیز محبت ہے بڑی گہری کھائی
گرتے ہیں یہاں لوگ بیاں رہ جاتے ہیں
یہ روگ محبت ہے تباہی کچھ ایسی
بوڑھے تو کیا اس میں جواں رہ جاتے ہیں
دو لفظ محبت کے ادا کرنا آفت
کرتے ہیں جتن لاکھ میاں رہ جاتے ہیں
اک بات محبت کی سنانے کو عاجز
الفاظ یہ کتنے بے زباں رہ جاتے ہیں

No comments:

Post a Comment