Thursday 17 November 2016

پانی کے پیاسے گھڑے رہ گئے
اشکوں سے نین بھرے رہ گئے
پہلی  نظر کے ہی تیر لگے
دل میں جگر میں گڑے رہ گئے
حال ء  دل بھی کہا نہ گیا
سہمے سے کچھ یوں ڈرے رہ گئے
تجھ سے پیار جتانے کو ہم
آگے بہت یوں بڑھے، رہ گئے
لوٹنے کی تھی امید تری
راستوں میں ہی کھڑے رہ گئے
کچھ یوں جلے ہیں پیار میں ہم
زندہ ہو کر بھی مرے رہ گئے
چاہ بہت تھے یوں دل کے مگر
نکلے تو کچھ یوں، بڑے رہ گئے
درس وفا کا جو دیتے تھے اب
بات بنا کے لڑے رہ گئے
عشق پیار کے وعدے ترے
دیکھ دھرے کے دھرے رہ گئے
مانگنے ہم یوں تجھی کو عمر
سجدوں میں ڈوب پڑے رہ گئے

No comments:

Post a Comment