Thursday 17 November 2016

تجھے کس بے بسی سے ملتا ہوں
ہاں بڑی بے خودی سے ملتا ہوں
نہ تمہیں مسکرا کے دیکھوں میں
میں کیا اجنبی سے ملتا ہوں
یوں ہو جاتا ہے حال اک دن سے
کہ رہ کر اک صدی سے ملتا ہوں
ہاں یقیں کرلو تم سے ملنا یہ
میں مرا ، زندگی سے ملتا ہوں
کوئی جانے نہ پر بھلا مجھ کو
ہوں عمر، عاجزی سے ملتا ہوں

No comments:

Post a Comment