Tuesday 15 November 2016

جہان  کا نہیں دل کا خیال رکھ
ہے چیز عشق بھلی اس کو پال رکھ
پتھر بہت ہی لگیں گے ذرا سنبھل
یہ راہ عشق کی ہے کوئی ڈھال رکھ
ملیں گے درد بھرے جام سب یہاں
تو ہنس کے پینے کا ان کو کمال رکھ
تو چھین لے جو ترا ہے کٹا لے سر
کیا ہے عشق تو اتنی مجال رکھ
بہت ہوا کہ سبھی دیکھ لیں گے اب
میں راستے میں ہوں گھونگھٹ نکال رکھ
نہ ڈر جواب سے کچھ تو امید کر
خدا کا نام لے اپنا سوال رکھ
کہ سازشیں بھی ہوں گی وار بھی ہوں گے
بری بھلی ہی سہی تو بھی  چال رکھ
یہ بال ایسے ہیں کالے ڈبو لیں سب
ذرا تو آنکھ میں ساحل نکال رکھ
یہ چاند بھی ہے پشیمان ہو رہا
کہ رخ سنبھال ذرا دیکھ بھال رکھ
وہ چوم لیتے ہیں بے حال لوگوں کو
لے کام عقل سے مرجھا ے گال رکھ
یوں بندگی بھی ہو دل کی لگی بھی عمر
تو زیست موت کی ایسی مثال رکھ

No comments:

Post a Comment