تجھے کس بے بسی سے ملتا ہوں
ہاں بڑی بے خودی سے ملتا ہوں
نہ تمہیں مسکرا کے دیکھوں میں
میں کیا اجنبی سے ملتا ہوں
یوں ہو جاتا ہے حال اک دن سے
کہ رہ کر اک صدی سے ملتا ہوں
ہاں یقیں کرلو تم سے ملنا یہ
میں مرا ، زندگی سے ملتا ہوں
کوئی جانے نہ پر بھلا مجھ کو
ہوں عمر، عاجزی سے ملتا ہوں
No comments:
Post a Comment