تھے لوگ ظالم پر تم خیال تو کرتے
جواب دے دیتے پر سوال تو کرتے
تجھے مرے دل کی داد خوب ملتی پر
یوں سامنے ملتے کچھ کمال تو کرتے
تری ہنسی پہ قربان زیست یہ ہوتی
حجاب رہنے دیتے بے حال تو کرتے
یوں توڑ دیتے اس ذات کو مٹا دیتے
ہٹاتے ماتھے سے پیچھے بال تو کرتے
وہیں پتھر ہو جاتے سمٹ کے رہ جاتے
ذرا یوں ہنس دیتے سرخ گال تو کرتے
تڑپتے مرتے ہم آہ بھی نہ کرتے پر
تری سو گرتے تم بس کہ جال تو کرتے
شکار ایسا ہوتے تمہیں خوشی ہوتی
بری سہی تم کچھ دل سے چال تو کرتے
تری سو اٹھنے والے سبھی پتھر کھاتے
کہ درد سے مرتے تم پہ ڈھال تو کرتے
یہ زخم مجھ کو سونے نہ دیتے مر جاتا
یوں پاس تو رہتے دیکھ بھال تو کرتے
بہت تھی عادت ان کو بدلنے کی عاجز
مگر محبت کچھ ایک سال تو کرتے
No comments:
Post a Comment