شکلیں ہوتیں مگر نام نہ ہوتا
کوئی شخص بھی بد نام نہ ہوتا
چھیڑنے پہ جو کرتے وہ عنایت
سر مرے کوئی الزام نہ ہوتا
زندگی کہیں آرام سے سوتی
موت کا کہیں پیغام نہ ہوتا
روز روز نئے دوست بناتے
دوستوں کو بھی کچھ کام نہ ہوتا
دائروں میں رہا کرتے مسافر
کوئی شخص بھی ناکام نہ ہوتا
روز تم سے ہمیں عشق ہو جاتا
عشق کو کبھی انجام نہ ہوتا
ہر کسی کو اگر ملتی محبت
ہاتھ ہاتھ اٹھا جام نہ ہوتا
تم خدا سے مجھے مانگتے رہتے
میں اگر تمہیں یوں عام نہ ہوتا
ہوں بغل میں چھرے لاکھ بھی عاجز
منہ میں لفظ مگر رام نہ ہوتا
No comments:
Post a Comment