لکھا تقدیر کا بھی حق ہے
گلہ تدبیر کا بھی حق ہے
سزا پر ہے عمل پہ صرف
جواب رحیم کا بھی حق ہے
جنم، شکل، مکاں تقدیر تھا مانا
عقل، نظر، سماع تقدیر تھا مانا
چور، ڈاکو، سو تقدیر نہیں ہے
مجبور ناری روح تقدیر نہیں ہے
تھا مختار گناہ میں تو کلی ہی
لکھا قلم کا بھی حق ہے
چھپا لوح کا بھی حق ہے
معلوم ہے اسے پتے جو بھی گرتے ہیں
معلوم ہے اسے بندے جو بھی پھرتے ہیں
مانا کہ ہنر سب کے ہیں الگ
مانا کہ سفر سب کے ہیں الگ
کتنے میں کتنے کا سوال ہے
جو علم تھا اتنے کا سوال ہے
تو نہیں نا سوال سب سے یکساں
دستور کاتب تقدیر کا بھی حق ہے
بس لکھے کی نہیں کیئے کی ہے جزا
جو ہونا تھا جو کیا پر ہے لکھا
لکھے کو جبر کیوں ہے مانے
لکھے کو قید کیوں ہے مانے
سمجھ بس یہ فرق کا نکتہ
تو جانے ہے موسم کل کا
وہ جانے ہے مقدر کل کا
لکھا تقدیر کا بھی حق ہے
گلہ تدبیر کا بھی حق ہے
No comments:
Post a Comment