ان آنکھوں میں اشکوں کے نشاں رہ جاتے ہیں
ہر چیز اثر چھوڑتی ہے اپنا دیکھو
جاتے ہیں مکیں پر یہ مکاں رہ جاتے ہیں
تم چھوڑ گئے پھر بھی کھلا رکھتے ہیں در
مرتی ہیں امیدیں یہ گماں رہ جاتے ہیں
گھر آس کے مسمار ہو جانے پر لیکن
یہ اشک عمر بھر یوں رواں رہ جاتے ہیں
سنتے ہیں خدا روز مرادیں سنتا ہے
ہر روز مگر ہم یہ کہاں رہ جاتے ہیں
ملتے ہیں تمہیں لوٹ بھی آتے ہیں لیکن
ملتے ہیں جہاں تم سے وہاں رہ جاتے ہیں
تنہا بھی نہیں ہوں جو اگر تنہا ہوں میں
وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں رہ جاتے ہیں
ہر روز سجاتے ہیں مکاں کو دل سے ہم
ہر روز ہی صاحب وہ کہاں رہ جاتے ہیں
ہر طور جدائی میں چھلکتے ہیں آنسو
دکھ جاتے ہیں کچھ، کچھ یوں نہاں رہ جاتے ہیں
یہ چیز محبت ہے بڑی گہری کھائی
گرتے ہیں یہاں لوگ بیاں رہ جاتے ہیں
یہ روگ محبت ہے تباہی کچھ ایسی
بوڑھے تو کیا اس میں جواں رہ جاتے ہیں
دو لفظ محبت کے ادا کرنا آفت
کرتے ہیں جتن لاکھ میاں رہ جاتے ہیں
اک بات محبت کی سنانے کو عاجز
الفاظ یہ کتنے بے زباں رہ جاتے ہیں
No comments:
Post a Comment