ٹوٹنے پہ کانچ کے کنارے رہ جاتے
ڈوبتوں کو تنکوں کے سہارے رہ جاتے
مجھ کو تو آنے کی کچھ امید تو دیتا
جھوٹے دھلاسے سہی تمھارے رہ جاتے
پڑتی جو ہم کو ذرا سی آس بھی تیری
ڈھونڈتے یہ نین کچھ ہمارے رہ جاتے
بنتی لکیروں میں کچھ بھی شکل جو تیری
کھوجتے ہی ہاتھ ہم بے چارے رہ جاتے
سانس سبھی زندگی کے ختم ہو جاتے
ہوتے جو تجھ سے جڑے وہ سارے رہ جاتے
وقت ء آخر یہ آنکھیں پھوڑ ہی جاتا
آنکھ میں تیرے ہی سب نظارے رہ جاتے
ہاتھ سے اپنے زباں بھی کاٹ یہ جاتا
ہم بے زباں ہوتے بس اشارے رہ جاتے
کاش یہ سب کشتیاں تباہ نہ ہوتیں
غرق سمندر یہ ہوں کنارے رہ جاتے
مات سبھی نفرتوں کو ہوتی کہ عاجز
شہر یہ بکتے مگر چبارے رہ جاتے
Thursday, 17 November 2016
لکھا تقدیر کا بھی حق ہے
گلہ تدبیر کا بھی حق ہے
سزا پر ہے عمل پہ صرف
جواب رحیم کا بھی حق ہے
جنم، شکل، مکاں تقدیر تھا مانا
عقل، نظر، سماع تقدیر تھا مانا
چور، ڈاکو، سو تقدیر نہیں ہے
مجبور ناری روح تقدیر نہیں ہے
تھا مختار گناہ میں تو کلی ہی
لکھا قلم کا بھی حق ہے
چھپا لوح کا بھی حق ہے
معلوم ہے اسے پتے جو بھی گرتے ہیں
معلوم ہے اسے بندے جو بھی پھرتے ہیں
مانا کہ ہنر سب کے ہیں الگ
مانا کہ سفر سب کے ہیں الگ
کتنے میں کتنے کا سوال ہے
جو علم تھا اتنے کا سوال ہے
تو نہیں نا سوال سب سے یکساں
دستور کاتب تقدیر کا بھی حق ہے
بس لکھے کی نہیں کیئے کی ہے جزا
جو ہونا تھا جو کیا پر ہے لکھا
لکھے کو جبر کیوں ہے مانے
لکھے کو قید کیوں ہے مانے
سمجھ بس یہ فرق کا نکتہ
تو جانے ہے موسم کل کا
وہ جانے ہے مقدر کل کا
لکھا تقدیر کا بھی حق ہے
گلہ تدبیر کا بھی حق ہے
گلہ تدبیر کا بھی حق ہے
سزا پر ہے عمل پہ صرف
جواب رحیم کا بھی حق ہے
جنم، شکل، مکاں تقدیر تھا مانا
عقل، نظر، سماع تقدیر تھا مانا
چور، ڈاکو، سو تقدیر نہیں ہے
مجبور ناری روح تقدیر نہیں ہے
تھا مختار گناہ میں تو کلی ہی
لکھا قلم کا بھی حق ہے
چھپا لوح کا بھی حق ہے
معلوم ہے اسے پتے جو بھی گرتے ہیں
معلوم ہے اسے بندے جو بھی پھرتے ہیں
مانا کہ ہنر سب کے ہیں الگ
مانا کہ سفر سب کے ہیں الگ
کتنے میں کتنے کا سوال ہے
جو علم تھا اتنے کا سوال ہے
تو نہیں نا سوال سب سے یکساں
دستور کاتب تقدیر کا بھی حق ہے
بس لکھے کی نہیں کیئے کی ہے جزا
جو ہونا تھا جو کیا پر ہے لکھا
لکھے کو جبر کیوں ہے مانے
لکھے کو قید کیوں ہے مانے
سمجھ بس یہ فرق کا نکتہ
تو جانے ہے موسم کل کا
وہ جانے ہے مقدر کل کا
لکھا تقدیر کا بھی حق ہے
گلہ تدبیر کا بھی حق ہے
پانی کے پیاسے گھڑے رہ گئے
اشکوں سے نین بھرے رہ گئے
پہلی نظر کے ہی تیر لگے
دل میں جگر میں گڑے رہ گئے
حال ء دل بھی کہا نہ گیا
سہمے سے کچھ یوں ڈرے رہ گئے
تجھ سے پیار جتانے کو ہم
آگے بہت یوں بڑھے، رہ گئے
لوٹنے کی تھی امید تری
راستوں میں ہی کھڑے رہ گئے
کچھ یوں جلے ہیں پیار میں ہم
زندہ ہو کر بھی مرے رہ گئے
چاہ بہت تھے یوں دل کے مگر
نکلے تو کچھ یوں، بڑے رہ گئے
درس وفا کا جو دیتے تھے اب
بات بنا کے لڑے رہ گئے
عشق پیار کے وعدے ترے
دیکھ دھرے کے دھرے رہ گئے
مانگنے ہم یوں تجھی کو عمر
سجدوں میں ڈوب پڑے رہ گئے
اشکوں سے نین بھرے رہ گئے
پہلی نظر کے ہی تیر لگے
دل میں جگر میں گڑے رہ گئے
حال ء دل بھی کہا نہ گیا
سہمے سے کچھ یوں ڈرے رہ گئے
تجھ سے پیار جتانے کو ہم
آگے بہت یوں بڑھے، رہ گئے
لوٹنے کی تھی امید تری
راستوں میں ہی کھڑے رہ گئے
کچھ یوں جلے ہیں پیار میں ہم
زندہ ہو کر بھی مرے رہ گئے
چاہ بہت تھے یوں دل کے مگر
نکلے تو کچھ یوں، بڑے رہ گئے
درس وفا کا جو دیتے تھے اب
بات بنا کے لڑے رہ گئے
عشق پیار کے وعدے ترے
دیکھ دھرے کے دھرے رہ گئے
مانگنے ہم یوں تجھی کو عمر
سجدوں میں ڈوب پڑے رہ گئے
تھے لوگ ظالم پر تم خیال تو کرتے
جواب دے دیتے پر سوال تو کرتے
تجھے مرے دل کی داد خوب ملتی پر
یوں سامنے ملتے کچھ کمال تو کرتے
تری ہنسی پہ قربان زیست یہ ہوتی
حجاب رہنے دیتے بے حال تو کرتے
یوں توڑ دیتے اس ذات کو مٹا دیتے
ہٹاتے ماتھے سے پیچھے بال تو کرتے
وہیں پتھر ہو جاتے سمٹ کے رہ جاتے
ذرا یوں ہنس دیتے سرخ گال تو کرتے
تڑپتے مرتے ہم آہ بھی نہ کرتے پر
تری سو گرتے تم بس کہ جال تو کرتے
شکار ایسا ہوتے تمہیں خوشی ہوتی
بری سہی تم کچھ دل سے چال تو کرتے
تری سو اٹھنے والے سبھی پتھر کھاتے
کہ درد سے مرتے تم پہ ڈھال تو کرتے
یہ زخم مجھ کو سونے نہ دیتے مر جاتا
یوں پاس تو رہتے دیکھ بھال تو کرتے
بہت تھی عادت ان کو بدلنے کی عاجز
مگر محبت کچھ ایک سال تو کرتے
جواب دے دیتے پر سوال تو کرتے
تجھے مرے دل کی داد خوب ملتی پر
یوں سامنے ملتے کچھ کمال تو کرتے
تری ہنسی پہ قربان زیست یہ ہوتی
حجاب رہنے دیتے بے حال تو کرتے
یوں توڑ دیتے اس ذات کو مٹا دیتے
ہٹاتے ماتھے سے پیچھے بال تو کرتے
وہیں پتھر ہو جاتے سمٹ کے رہ جاتے
ذرا یوں ہنس دیتے سرخ گال تو کرتے
تڑپتے مرتے ہم آہ بھی نہ کرتے پر
تری سو گرتے تم بس کہ جال تو کرتے
شکار ایسا ہوتے تمہیں خوشی ہوتی
بری سہی تم کچھ دل سے چال تو کرتے
تری سو اٹھنے والے سبھی پتھر کھاتے
کہ درد سے مرتے تم پہ ڈھال تو کرتے
یہ زخم مجھ کو سونے نہ دیتے مر جاتا
یوں پاس تو رہتے دیکھ بھال تو کرتے
بہت تھی عادت ان کو بدلنے کی عاجز
مگر محبت کچھ ایک سال تو کرتے
Tuesday, 15 November 2016
سب تیر نکلنے پہ کماں رہ جاتے ہیں
ان آنکھوں میں اشکوں کے نشاں رہ جاتے ہیں
ہر چیز اثر چھوڑتی ہے اپنا دیکھو
جاتے ہیں مکیں پر یہ مکاں رہ جاتے ہیں
تم چھوڑ گئے پھر بھی کھلا رکھتے ہیں در
مرتی ہیں امیدیں یہ گماں رہ جاتے ہیں
گھر آس کے مسمار ہو جانے پر لیکن
یہ اشک عمر بھر یوں رواں رہ جاتے ہیں
سنتے ہیں خدا روز مرادیں سنتا ہے
ہر روز مگر ہم یہ کہاں رہ جاتے ہیں
ملتے ہیں تمہیں لوٹ بھی آتے ہیں لیکن
ملتے ہیں جہاں تم سے وہاں رہ جاتے ہیں
تنہا بھی نہیں ہوں جو اگر تنہا ہوں میں
وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں رہ جاتے ہیں
ہر روز سجاتے ہیں مکاں کو دل سے ہم
ہر روز ہی صاحب وہ کہاں رہ جاتے ہیں
ہر طور جدائی میں چھلکتے ہیں آنسو
دکھ جاتے ہیں کچھ، کچھ یوں نہاں رہ جاتے ہیں
یہ چیز محبت ہے بڑی گہری کھائی
گرتے ہیں یہاں لوگ بیاں رہ جاتے ہیں
یہ روگ محبت ہے تباہی کچھ ایسی
بوڑھے تو کیا اس میں جواں رہ جاتے ہیں
دو لفظ محبت کے ادا کرنا آفت
کرتے ہیں جتن لاکھ میاں رہ جاتے ہیں
اک بات محبت کی سنانے کو عاجز
الفاظ یہ کتنے بے زباں رہ جاتے ہیں
ان آنکھوں میں اشکوں کے نشاں رہ جاتے ہیں
ہر چیز اثر چھوڑتی ہے اپنا دیکھو
جاتے ہیں مکیں پر یہ مکاں رہ جاتے ہیں
تم چھوڑ گئے پھر بھی کھلا رکھتے ہیں در
مرتی ہیں امیدیں یہ گماں رہ جاتے ہیں
گھر آس کے مسمار ہو جانے پر لیکن
یہ اشک عمر بھر یوں رواں رہ جاتے ہیں
سنتے ہیں خدا روز مرادیں سنتا ہے
ہر روز مگر ہم یہ کہاں رہ جاتے ہیں
ملتے ہیں تمہیں لوٹ بھی آتے ہیں لیکن
ملتے ہیں جہاں تم سے وہاں رہ جاتے ہیں
تنہا بھی نہیں ہوں جو اگر تنہا ہوں میں
وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں رہ جاتے ہیں
ہر روز سجاتے ہیں مکاں کو دل سے ہم
ہر روز ہی صاحب وہ کہاں رہ جاتے ہیں
ہر طور جدائی میں چھلکتے ہیں آنسو
دکھ جاتے ہیں کچھ، کچھ یوں نہاں رہ جاتے ہیں
یہ چیز محبت ہے بڑی گہری کھائی
گرتے ہیں یہاں لوگ بیاں رہ جاتے ہیں
یہ روگ محبت ہے تباہی کچھ ایسی
بوڑھے تو کیا اس میں جواں رہ جاتے ہیں
دو لفظ محبت کے ادا کرنا آفت
کرتے ہیں جتن لاکھ میاں رہ جاتے ہیں
اک بات محبت کی سنانے کو عاجز
الفاظ یہ کتنے بے زباں رہ جاتے ہیں
جہان کا نہیں دل کا خیال رکھ
ہے چیز عشق بھلی اس کو پال رکھ
پتھر بہت ہی لگیں گے ذرا سنبھل
یہ راہ عشق کی ہے کوئی ڈھال رکھ
ملیں گے درد بھرے جام سب یہاں
تو ہنس کے پینے کا ان کو کمال رکھ
تو چھین لے جو ترا ہے کٹا لے سر
کیا ہے عشق تو اتنی مجال رکھ
بہت ہوا کہ سبھی دیکھ لیں گے اب
میں راستے میں ہوں گھونگھٹ نکال رکھ
نہ ڈر جواب سے کچھ تو امید کر
خدا کا نام لے اپنا سوال رکھ
کہ سازشیں بھی ہوں گی وار بھی ہوں گے
بری بھلی ہی سہی تو بھی چال رکھ
یہ بال ایسے ہیں کالے ڈبو لیں سب
ذرا تو آنکھ میں ساحل نکال رکھ
یہ چاند بھی ہے پشیمان ہو رہا
کہ رخ سنبھال ذرا دیکھ بھال رکھ
وہ چوم لیتے ہیں بے حال لوگوں کو
لے کام عقل سے مرجھا ے گال رکھ
یوں بندگی بھی ہو دل کی لگی بھی عمر
تو زیست موت کی ایسی مثال رکھ
ہے چیز عشق بھلی اس کو پال رکھ
پتھر بہت ہی لگیں گے ذرا سنبھل
یہ راہ عشق کی ہے کوئی ڈھال رکھ
ملیں گے درد بھرے جام سب یہاں
تو ہنس کے پینے کا ان کو کمال رکھ
تو چھین لے جو ترا ہے کٹا لے سر
کیا ہے عشق تو اتنی مجال رکھ
بہت ہوا کہ سبھی دیکھ لیں گے اب
میں راستے میں ہوں گھونگھٹ نکال رکھ
نہ ڈر جواب سے کچھ تو امید کر
خدا کا نام لے اپنا سوال رکھ
کہ سازشیں بھی ہوں گی وار بھی ہوں گے
بری بھلی ہی سہی تو بھی چال رکھ
یہ بال ایسے ہیں کالے ڈبو لیں سب
ذرا تو آنکھ میں ساحل نکال رکھ
یہ چاند بھی ہے پشیمان ہو رہا
کہ رخ سنبھال ذرا دیکھ بھال رکھ
وہ چوم لیتے ہیں بے حال لوگوں کو
لے کام عقل سے مرجھا ے گال رکھ
یوں بندگی بھی ہو دل کی لگی بھی عمر
تو زیست موت کی ایسی مثال رکھ
مرنے سے یوں اگر موت آنے لگے
قبر جنت لگے، گھر ستانے لگے
جب وہ میرا جنازہ اٹھانے لگے
آپ آئے محبت جتانے لگے
آسماں نے سہارے دیئے جب گرا
پھر یوں ڈوبا سمندر بچانے لگے
ہو مسافر نیت کا پکا اس طرح
راستہ خود ہی منزل بتانے لگے
کاش میری محبت خدا ایسی ہو
شمع اس کی ہوا کو جلانے لگے
شب ٹھہر جائے، خالی نہ ہوں جام، جب
دور پہنچے ادھر وہ پلانے لگے
شوخیاں میں سمجھتا ہوں دن کی مگر
تم تو خوابوں میں نیندیں اڑانے لگے
ہم مسافر تھےٹھہرے یوں ہی رات اک
لوگ کم بخت باتیں بنانے لگے
ایک پل کو میں بھی سوچ میں پڑ گیا
لوگ الزام اتنے لگانے لگے
وہ نہیں ہے ملا کام کی جو تری
بات مسلم کو کافر بنانے لگے
عشق میں زیست کی ہو گئی شام جب
پھینک سجدے میں سر رب منانے لگے
قبر جنت لگے، گھر ستانے لگے
جب وہ میرا جنازہ اٹھانے لگے
آپ آئے محبت جتانے لگے
آسماں نے سہارے دیئے جب گرا
پھر یوں ڈوبا سمندر بچانے لگے
ہو مسافر نیت کا پکا اس طرح
راستہ خود ہی منزل بتانے لگے
کاش میری محبت خدا ایسی ہو
شمع اس کی ہوا کو جلانے لگے
شب ٹھہر جائے، خالی نہ ہوں جام، جب
دور پہنچے ادھر وہ پلانے لگے
شوخیاں میں سمجھتا ہوں دن کی مگر
تم تو خوابوں میں نیندیں اڑانے لگے
ہم مسافر تھےٹھہرے یوں ہی رات اک
لوگ کم بخت باتیں بنانے لگے
ایک پل کو میں بھی سوچ میں پڑ گیا
لوگ الزام اتنے لگانے لگے
وہ نہیں ہے ملا کام کی جو تری
بات مسلم کو کافر بنانے لگے
عشق میں زیست کی ہو گئی شام جب
پھینک سجدے میں سر رب منانے لگے
مرتے ہیں، اترتے ہیں، تری جان کے صدقے
ہو جاتے ہیں انسان ہی انسان کے صدقے
جب عشق سمندر میں نہ ہو کوئی بھی ساحل
پھر چھوڑ دو کشتی کسی طوفان کے صدقے
وہ آئے ترا نام لیا جان یہ مانگی
ہم نے بھی یوں دے دی تری پہچان کے صدقے
ساقی نے دیا زہر بھرا جام مجھے اور
میں پی گیا سارا تری دوکان کے صدقے
خنجر لئے ہاتھوں میں تلاشے ہیں وہ قاتل
ہم پھر ہیں مرے جاتے یوں انجان کے صدقے
انصاف کے پورے جو تقاضے ہیں یہاں پر
ہے عدل بھی جاتا ترے میزان کے صدقے
آنکھوں نے تری لوٹا ہے بازار لگا کر
ہم بک گئے سچ میں ترے سامان کے صدقے
تقدیر نہیں معجزے سے تم مرے ہوگے
ایمان لے آؤ، مرے ایمان کے صدقے
آنا ہے اسے گھر میں کروں چاند سے روشن
میں گھر ہی جلا دوں مرے مہمان کے صدقے
شکوے ہیں اگر کچھ تمہیں اس چاند سے بولو
ہم چاند مٹا دیں گے تری شان کے صدقے
یہ عمر ہو عاجز کی ترے حکم کے پیچھے
مومن ہوں مروں کیوں کسی شیطان کے صدقے
ہو جاتے ہیں انسان ہی انسان کے صدقے
جب عشق سمندر میں نہ ہو کوئی بھی ساحل
پھر چھوڑ دو کشتی کسی طوفان کے صدقے
وہ آئے ترا نام لیا جان یہ مانگی
ہم نے بھی یوں دے دی تری پہچان کے صدقے
ساقی نے دیا زہر بھرا جام مجھے اور
میں پی گیا سارا تری دوکان کے صدقے
خنجر لئے ہاتھوں میں تلاشے ہیں وہ قاتل
ہم پھر ہیں مرے جاتے یوں انجان کے صدقے
انصاف کے پورے جو تقاضے ہیں یہاں پر
ہے عدل بھی جاتا ترے میزان کے صدقے
آنکھوں نے تری لوٹا ہے بازار لگا کر
ہم بک گئے سچ میں ترے سامان کے صدقے
تقدیر نہیں معجزے سے تم مرے ہوگے
ایمان لے آؤ، مرے ایمان کے صدقے
آنا ہے اسے گھر میں کروں چاند سے روشن
میں گھر ہی جلا دوں مرے مہمان کے صدقے
شکوے ہیں اگر کچھ تمہیں اس چاند سے بولو
ہم چاند مٹا دیں گے تری شان کے صدقے
یہ عمر ہو عاجز کی ترے حکم کے پیچھے
مومن ہوں مروں کیوں کسی شیطان کے صدقے
تو تو گیا مگر ترے خیال رہ گئے
یہ زندگی کو کتنے ہی وبال رہ گئے
تو نے بھی جانے میں بڑی ہی تیزی کر دی تھی
مجھے جو پوچھنے تھے سب سوال رہ گئے
بھلائے فائدوں کو کام جو کئے گئے
یہی ہیں لوگ جواچھی مثال رہ گئے
نظر ڈلی تھی ایک شخص پر ذرا کہیں
یہاں وہاں کو ڈھونڈتے وہ چال رہ گئے
وہ بات بات پر مجھے جو ٹوک دیتے تھے
بہت کی تھی جناب نے مجال رہ گئے
یہ زندگی کو کتنے ہی وبال رہ گئے
تو نے بھی جانے میں بڑی ہی تیزی کر دی تھی
مجھے جو پوچھنے تھے سب سوال رہ گئے
بھلائے فائدوں کو کام جو کئے گئے
یہی ہیں لوگ جواچھی مثال رہ گئے
نظر ڈلی تھی ایک شخص پر ذرا کہیں
یہاں وہاں کو ڈھونڈتے وہ چال رہ گئے
وہ بات بات پر مجھے جو ٹوک دیتے تھے
بہت کی تھی جناب نے مجال رہ گئے
Monday, 14 November 2016
کتنے مشکل حالات میں لکھتا ہوں
دن میں سناتا ہوں رات میں لکھتا ہوں
ربط تیرا ہر خیال میں رکھتا ہوں
نام تیرا ہر بات میں لکھتا ہوں
شرماو مت یہ لفظ ہی ہیں
شاعر ہوں جذبات میں لکھتا ہوں
فراق میں آنسو چھلکتے رہتے ہیں
میں اشکوں کی برسات میں لکھتا ہوں
سب لکھ دوں پر وہ بدنام نہ ہوں
دائرے میں رہتا ہوں اوقات میں لکھتا ہوں
لوح و قلم مجھ دے سنبھلتے نہیں عاجز
روح میں اترتا ہوں ذات میں لکھتا ہوں
دن میں سناتا ہوں رات میں لکھتا ہوں
ربط تیرا ہر خیال میں رکھتا ہوں
نام تیرا ہر بات میں لکھتا ہوں
شرماو مت یہ لفظ ہی ہیں
شاعر ہوں جذبات میں لکھتا ہوں
فراق میں آنسو چھلکتے رہتے ہیں
میں اشکوں کی برسات میں لکھتا ہوں
سب لکھ دوں پر وہ بدنام نہ ہوں
دائرے میں رہتا ہوں اوقات میں لکھتا ہوں
لوح و قلم مجھ دے سنبھلتے نہیں عاجز
روح میں اترتا ہوں ذات میں لکھتا ہوں
شکلیں ہوتیں مگر نام نہ ہوتا
کوئی شخص بھی بد نام نہ ہوتا
چھیڑنے پہ جو کرتے وہ عنایت
سر مرے کوئی الزام نہ ہوتا
زندگی کہیں آرام سے سوتی
موت کا کہیں پیغام نہ ہوتا
روز روز نئے دوست بناتے
دوستوں کو بھی کچھ کام نہ ہوتا
دائروں میں رہا کرتے مسافر
کوئی شخص بھی ناکام نہ ہوتا
روز تم سے ہمیں عشق ہو جاتا
عشق کو کبھی انجام نہ ہوتا
ہر کسی کو اگر ملتی محبت
ہاتھ ہاتھ اٹھا جام نہ ہوتا
تم خدا سے مجھے مانگتے رہتے
میں اگر تمہیں یوں عام نہ ہوتا
ہوں بغل میں چھرے لاکھ بھی عاجز
منہ میں لفظ مگر رام نہ ہوتا
کوئی شخص بھی بد نام نہ ہوتا
چھیڑنے پہ جو کرتے وہ عنایت
سر مرے کوئی الزام نہ ہوتا
زندگی کہیں آرام سے سوتی
موت کا کہیں پیغام نہ ہوتا
روز روز نئے دوست بناتے
دوستوں کو بھی کچھ کام نہ ہوتا
دائروں میں رہا کرتے مسافر
کوئی شخص بھی ناکام نہ ہوتا
روز تم سے ہمیں عشق ہو جاتا
عشق کو کبھی انجام نہ ہوتا
ہر کسی کو اگر ملتی محبت
ہاتھ ہاتھ اٹھا جام نہ ہوتا
تم خدا سے مجھے مانگتے رہتے
میں اگر تمہیں یوں عام نہ ہوتا
ہوں بغل میں چھرے لاکھ بھی عاجز
منہ میں لفظ مگر رام نہ ہوتا
Subscribe to:
Posts (Atom)